خود فریبی - ڈاکڑ عبدالقدیر خان
میں نہ ہی میڈیکل ڈاکٹر ہوں، نہ ہی ماہر نفسیات، مگر ایک سائنسدان ہونے کی حیثیت سے میری عادت بن گئی ہے کہ ہر چیز کو بہت غور سے دیکھتا ہوں یعنی قدرت نے قوّت مشاہدہ اور باریک بینی دی ہے۔ یہ ایک ایسی عادت یا صفت ہے کہ اس نے ایٹمی پروگرام کی کامیابی میں بہت بڑا رول ادا کیا تھا۔ چیزوں اور آمنے سامنے ہونے والی باتوں اور واقعات کو غور سے دیکھنے اور یاد رکھنے کی عادت آپ کو قدرت سے ملتی ہے لوگ خود سے آسانی سے نہیں سیکھتے۔ اس کو آپ اس طرح سمجھئے جیسا کہ عقل وفہم و بصیرت کا معاملہ ہے۔ لوگ اعلیٰ تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں، کتابیں حفظ کرسکتے ہیں اور اچھے امتیازی نمبروں سے امتحان پاس کرسکتے ہیں لیکن ان سنہری دستاویزات کے باوجود وہ زندگی میں کامیاب نہیں ہوتے۔ وجہ یہ ہے کہ تعلیم تو حاصل کرلی مگر اللہ تعالیٰ نے عقل و فہم و بصیرت سے محروم رکھا۔ جس کو اللہ تعالیٰ عقل و فہم و فراست نہ دے وہ کھو گیا، اس کو کوئی بھی یہ دولت نہیں دے سکتا۔
آپ سوچ رہے ہونگے کہ میں کن چکروں میں پڑ گیا اور کہاں کی باتیں لے کر بیٹھ گیا۔ میں آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ اس کی کیا وجہ ہے۔
پچھلے تقریباًچار سال سے مختلف سیاسی پارٹیوں کے لیڈر اور نمائندے روزہی کسی نہ کسی ٹی وی پروگرام میں بحث و مباحثہ میں نظر آتے ہیں۔ بحث و مباحثہ تومہذب لفظ ہے یہ کہنا بہتر ہوگا کہ یہ لوگ مچھلی و سبزی منڈی لگاتے ہیں۔ عوام ان کے اسی روّیہ سے اُکتا گئے ہیں۔ میں نے خود جب کئی ڈائرکٹر /پروڈیوسر صاحبان سے اس کی شکایت کی کہ وہ کیوں غیر متعلقہ شخص کی آواز بند نہیں کرتے تو بولے ہم عوام کو ان "تعلیمیافتہ اور تہذیب یافتہ" عوامی نمائندوں کی اخلاقی پستی دکھاتے ہیں تاکہ وہ دیکھیں کہ ان میں تہذیب و صبر و تحمل کا فقدان ہے۔
میں نے پچھلے دنوں نہایت مہذب طریقہ سے میاں نواز شریف صاحب کی پچھلی غلطیوں کی جانب توجہ دلائی تھی۔ ٹی وی پر میرے عزیز و ذی فہم دوست ندیم ملک نے اُسی روز ملک کے سیاسی حالات پر پروگرام کیا۔ وہاں میاں صاحب کے متوالوں میں سے ایک صاحب اپنی عقل و فہم کے جوہر دکھا رہے تھے۔ ملک صاحب نے کہا کہ ڈاکٹر خان نے آج ہی ایک اچھا کالم، "اَب لکیر پیٹا کر" کے عنوان سے لکھا ہے اور میاں صاحب کے بلنڈرز کی جانب توجہ دلائی ہے۔ وہ صاحب بولے کہ ڈاکٹر خان سائنٹسٹ ہیں پولیٹیکل سائنٹسٹ نہیں۔ ہم پولیٹیکل سائنٹسٹ ہیں۔ اس سے ان کی خوش فہمی و کم عقلیکا مظاہرہ ہوا۔ ایک پولیٹیکل سائنٹسٹ کو سائنس کی الف، بے ، کا علم نہیں ہوتا مگر ایک سائنٹسٹ کو سیاست کی "ی،یے" کی بھی سمجھ ہوتی ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ اعلیٰ تعلیم، ڈاکٹریٹ کی ڈگری والے اور تجربہ کار لوگ جاہل سمجھے جاتے ہیں اورلنڈا بازار کے تعلیمیافتہ عقل کُل سمجھے جاتے ہیں۔ ملک کی موجودہ بَد تر حالت اِسی کرشمہ سازی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
آئیے آپ کے سامنے عوامی نمائندوں کے اس روّیہ کے بارہ میں علم نفسیات کی روشنی میں کچھ معروضات پیش کروں۔ اس قسم کے روّیہ کو سمجھنے کے لئے ہمیں سائیکالوجی یعنی نفس انسانی اور اس کے عمل کا علمی مطالعہ، خصوصاً خاص ماحول یا حالات میں، کسی فرد کے ذہنی روّیے اور خصوصیات کا علمی مطالعہ کہہ سکتے ہیں۔ اس کو آپ قیاس یا نقطہٴ نظر ، فکری یا نظری بات اور علمی یا سائنسی حقائق کا اظہار بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہم ایسے اثرزدہ لوگوں کے علاج کے لئے سائیکیاٹری کا علم یعنی نفسیاتی علاج اور نفسیاتی امراض کی تحقیق کہہ سکتے ہیں۔ ان دونوں علوم سے ضدّی، خود کو ہر بات میں سچ اور سب سے بہتر سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد کا علاج کیا جاتا ہے۔ میں اس سلسلہ میں فرانس کے ماہرین نفسیات ڈاکٹر ڈین اِسپربیئر (Dan Sperber) جنہوں نے پیرس کی مشہور یونیورسٹی سوربون (Sorbonne) اور آکسفورڈ (Oxford) یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی تھی اور انکے شاگرد ڈاکٹر ہُو گو مَرسیئے (Hugo Mercier) کی تحقیق اور اس کے نتائج سے آپ کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ ان دونوں ماہر نفسیات کی تحقیق یا ریسرچ کے مطابق انسانوں کی اکثریت اتنی سچائی اور حقیقت کو جاننے کے لئے جستجو نہیں کرتی جتنی کہ خود سے اَخذ کئے ہوئے نتائج کو درست ثابت کرنے پر تلی رہتی ہے۔ پھر ایسا کرتے ہوئے لوگ اپنے مٴوقف کے دونوں پہلوؤں یعنی ٹھیک اور غلط کو زیر نگاہ نہیں رکھتے۔ صرف ان ہی دلائل کی رٹ لگائے جاتے ہیں جو ان کے اپنے نقطہ نظر کی حمایت یا حق میں جاتے ہیں۔ یہ لوگ مخالف دلائل کو (خواہ وہ کتنے ہی وزنی اور قوّی ہوں) سننے یا ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔ الحمرا لاہور کے اگست کے شمارہ میں ہالینڈ میں رہائش پزیر جناب حسین شاہد صاحب نے بھی اس تحقیق کی جانب توجہ مبذول کرائی تھی اور لوگوں کی ضد اور ہٹ دھرمی کے بارہ میں تبصرہ کیا تھا۔
اس سلسلہ میں کئی سال پیشتر ایک عالم اور مردم شناس عرب دوست نے بہت ہی اہم تبصرہ کیا تھا۔ ان کا مطالعہ وسیع تھا اور انھوں نے کہا تھا کہ انسانی کردار و اعمال کے مشاہدہ کی بنیاد پر بلا جھجک کہہ سکتا ہوں کہ آپ بد شکل انسان میں عقل و فہم کا فقدان پائینگے کیونکہ اللہ تعالیٰ جس فرد کو اپنی رحمت سے نواز کر عقل و فہم دیتا ہے اس کو کم از کم خوش شکل بھی بناتا ہے۔ایک خوبصورت پھول بدبودار نہیں ہوتاا سی طرح اللہ تعالیٰ عیار، مکّار اور ناقابل بھروسہ فرد میں ضرور ظاہری عیب دیدیتا ہے کہ لوگ اس سے ہوشیار رہیں۔ یہ بات اُنھوں نے بہت سوچ سمجھ کر کہی تھی اور نہایت اعتماد سے کہی تھی۔ میں نے ہمیشہ یہ بات مدنظر رکھ کر لوگوں کا مشاہدہ کیا اور اس بیان کی صداقت کا قائل ہوگیا۔ اب سیاست دانوں اور دوسرے لوگوں سے جب میرا سابقہ پڑتا ہے تو خودبخود یہ بات خیال میں آجاتی ہے۔
ایک معزز اور ایماندار اور ذی فہم سیاست داں یعنی شاہ محمود قریشی نے تحریک اِنصاف میں شمولیت کا اعلان کردیا ہے۔ ان کی شرکت سے عمران خان کی پارٹی کو بہت تقویت ملے گی۔ وہ ایک نڈر اور راست گو سیاست داں ہیں۔ عمران خان خود محب وطن ہیں، مخلص ہیں اور ملک و عوام کا درد ان کے دل میں ہے۔ اس وقت ان کو بہت احتیاط و سوچ سمجھ کر اپنی تقریریں کرنا چاہئے ا ور عوام سے بہت سوچ سمجھ کر وعدے کرنا چاہیئے۔ ہم سب نے روٹی، کپڑا، مکان کا حشر دیکھ لیا ہے۔ وہ کھوکھلے نعرے لگانے سے گریز کریں اور عوام کو درپیش مسائل کے حل کی جانب توجہ دیں۔ عوام اب تک "ماراچہ ازیں قصّہ کہ گاؤ آمدو خر رفت" یعنی ہمیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ بیل آیا اور گدھا چلا گیا، کا کھیل دیکھ رہے ہیں۔ عمران خان کے مشیروں میں سے کسی نے ان کی توجہ ان کے بار بار سونامی کے نعرے اور اس کا صحیح مطلب سمجھانے کی کوشش نہیں کی۔ سونامی ان اونچی، تیز لہروں کو کہتے ہیں جو زیر آب (سمند ر میں) طاقتور زلزلے سے پیدا ہوتی ہیں۔ اس کی تازہ مثال ابھی ماضی قریب میں مشرق بعید کی ہے اس خوفناک زلزلے اور نتیجہ میں اُٹھنے والی خوفناک لہروں نے انڈونیشیا، تھائی لینڈ، ہندوستان وغیرہ میں تباہی پھیلا دی تھی۔ ڈھائی لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک کئے۔ کئی لاکھ مویشی، مکانات، عمارتیں چند لمحوں میں صفحہٴ ہستی سے غائب ہوگئیں۔ یہ سونامی عذاب اپنے پیچھے تباہی، غارتگری ،اموات چھوڑ گیا۔ اس کے نتیجہ میں کچھ بھی اچھا نتیجہ نہیں نکلا تھا۔ عمران خان اگر برائی کے بدلے اچھائی لانا چاہتے ہیں تو بہتری کے لئے عوامی انقلاب کی دعوت دیں، سونامی کی نہیں۔ آپ بہتری، اچھائی کی اُمید اور آمد کی خوشخبری سنائیں۔ عوام تبدیلی چاہتے ہیں، موجودہ نااہل و راشی حکمرانوں سے اُکتا گئے ہیں۔ میں سیاست داں نہیں مگر انسان جب کچھ پڑھ لیتا ہے تو حالات کو سمجھنے کی صلاحیت آ ہی جاتی ہے۔ ملک کے نازک حالات میں اس وقت عمران خان کو اور نوازشریف صاحب،شہباز شریف صاحب کو نہایت مخلصانہ مشورہ ہے کہ اس ملک کو بچانے، عوام کی تکالیف دور کرنے اور پاکستان کا کھویا بلکہ تباہ کردہ وقار بحال کرنے کے لئے آپ مل کر اگلے الیکشن میں حصّہ لیں جیسا کہ میرے محترم دوست جاوید ہاشمی نے بھی کہا ہے ۔ موجودہ حالات میں آپ دونوں آپس میں لڑ کر چوروں اور نااہلوں کی حکمرانی کو طول دینگے اور اس پانچ سال کے دور کے بعد آپ ناپید ہوجائینگے۔ مجھے یقین ہے کہ ملک کو بچانے اور عوام کی مشکلات دور کرنے میں جماعت اسلامی بھی آپ کا ساتھ دیگی۔ خدا کے لئے جاہل مشیروں سے جان چھڑائیں، ماضی پر نظر ڈالیں اور کچھ سیکھیں۔
آجکل جب میں لاتعداد خود کارمشیروں کو قومی لیڈروں کے ارد گرد دیکھتا ہوں تو مجھے فرعون اور حضرت موسیٰ کا واقعہ یاد آجاتا ہے۔ جب فرعون کی زیادتیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ وہ اپنے قبیلہ یعنی بنی اسرائیل کو لے کر بحر قلزم کو عبور کرکے دوسری جانب محفوظ علاقہ میں چلے جائیں تو وہ سمندر کی جانب چل پڑے ۔ وہاں اللہ تعالیٰ کے حکم پر حضرت موسیٰ نے پانی پر اپنا عصا مارا تو وہ دو حصّوں میں پھٹ گیا اور حضرت موسیٰ اور ان کا قبیلہ اس میں اتر کر روانہ ہو گیا۔ جب فرعون اپنے فوجی دستہ کے ساتھ وہاں پہنچا تو سمندر کو پھٹا دیکھ کرحیران ہوا۔ اس کے مشیروں نے کہا کہ آپ کے خوف اور احترام میں سمندر نے راستہ بنا دیا ہے کہ ہم موسیٰ اور اسکے قبیلہ کو پکڑ سکیں۔ جونہی وہ پانی کے دو حصّوں کے درمیان اترے اور کچھ دور گئے کہ اللہ تعالی ٰ نے دونوں حصّوں کو ملا دیا اور فرعون اور اس کے ساتھی غرق ہوگئے۔ آپ نے دیکھا کہ عقل و فہم سے مُبرّا مشیروں کے مشورہ پر عمل کرکے فرعون کا کیا حشر ہوا۔ سیاسی رہنماؤں خاص کر نواز شریف، شہباز شریف اور عمران خان کو چاہئے کہ اپنے مستقبل، ملک کے اور عوام کے مفاد کی خاطر "مشیروں" سے ہوشیار رہیں۔
میں نہ ہی میڈیکل ڈاکٹر ہوں، نہ ہی ماہر نفسیات، مگر ایک سائنسدان ہونے کی حیثیت سے میری عادت بن گئی ہے کہ ہر چیز کو بہت غور سے دیکھتا ہوں یعنی قدرت نے قوّت مشاہدہ اور باریک بینی دی ہے۔ یہ ایک ایسی عادت یا صفت ہے کہ اس نے ایٹمی پروگرام کی کامیابی میں بہت بڑا رول ادا کیا تھا۔ چیزوں اور آمنے سامنے ہونے والی باتوں اور واقعات کو غور سے دیکھنے اور یاد رکھنے کی عادت آپ کو قدرت سے ملتی ہے لوگ خود سے آسانی سے نہیں سیکھتے۔ اس کو آپ اس طرح سمجھئے جیسا کہ عقل وفہم و بصیرت کا معاملہ ہے۔ لوگ اعلیٰ تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں، کتابیں حفظ کرسکتے ہیں اور اچھے امتیازی نمبروں سے امتحان پاس کرسکتے ہیں لیکن ان سنہری دستاویزات کے باوجود وہ زندگی میں کامیاب نہیں ہوتے۔ وجہ یہ ہے کہ تعلیم تو حاصل کرلی مگر اللہ تعالیٰ نے عقل و فہم و بصیرت سے محروم رکھا۔ جس کو اللہ تعالیٰ عقل و فہم و فراست نہ دے وہ کھو گیا، اس کو کوئی بھی یہ دولت نہیں دے سکتا۔
آپ سوچ رہے ہونگے کہ میں کن چکروں میں پڑ گیا اور کہاں کی باتیں لے کر بیٹھ گیا۔ میں آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ اس کی کیا وجہ ہے۔
پچھلے تقریباًچار سال سے مختلف سیاسی پارٹیوں کے لیڈر اور نمائندے روزہی کسی نہ کسی ٹی وی پروگرام میں بحث و مباحثہ میں نظر آتے ہیں۔ بحث و مباحثہ تومہذب لفظ ہے یہ کہنا بہتر ہوگا کہ یہ لوگ مچھلی و سبزی منڈی لگاتے ہیں۔ عوام ان کے اسی روّیہ سے اُکتا گئے ہیں۔ میں نے خود جب کئی ڈائرکٹر /پروڈیوسر صاحبان سے اس کی شکایت کی کہ وہ کیوں غیر متعلقہ شخص کی آواز بند نہیں کرتے تو بولے ہم عوام کو ان "تعلیمیافتہ اور تہذیب یافتہ" عوامی نمائندوں کی اخلاقی پستی دکھاتے ہیں تاکہ وہ دیکھیں کہ ان میں تہذیب و صبر و تحمل کا فقدان ہے۔
میں نے پچھلے دنوں نہایت مہذب طریقہ سے میاں نواز شریف صاحب کی پچھلی غلطیوں کی جانب توجہ دلائی تھی۔ ٹی وی پر میرے عزیز و ذی فہم دوست ندیم ملک نے اُسی روز ملک کے سیاسی حالات پر پروگرام کیا۔ وہاں میاں صاحب کے متوالوں میں سے ایک صاحب اپنی عقل و فہم کے جوہر دکھا رہے تھے۔ ملک صاحب نے کہا کہ ڈاکٹر خان نے آج ہی ایک اچھا کالم، "اَب لکیر پیٹا کر" کے عنوان سے لکھا ہے اور میاں صاحب کے بلنڈرز کی جانب توجہ دلائی ہے۔ وہ صاحب بولے کہ ڈاکٹر خان سائنٹسٹ ہیں پولیٹیکل سائنٹسٹ نہیں۔ ہم پولیٹیکل سائنٹسٹ ہیں۔ اس سے ان کی خوش فہمی و کم عقلیکا مظاہرہ ہوا۔ ایک پولیٹیکل سائنٹسٹ کو سائنس کی الف، بے ، کا علم نہیں ہوتا مگر ایک سائنٹسٹ کو سیاست کی "ی،یے" کی بھی سمجھ ہوتی ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ اعلیٰ تعلیم، ڈاکٹریٹ کی ڈگری والے اور تجربہ کار لوگ جاہل سمجھے جاتے ہیں اورلنڈا بازار کے تعلیمیافتہ عقل کُل سمجھے جاتے ہیں۔ ملک کی موجودہ بَد تر حالت اِسی کرشمہ سازی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
آئیے آپ کے سامنے عوامی نمائندوں کے اس روّیہ کے بارہ میں علم نفسیات کی روشنی میں کچھ معروضات پیش کروں۔ اس قسم کے روّیہ کو سمجھنے کے لئے ہمیں سائیکالوجی یعنی نفس انسانی اور اس کے عمل کا علمی مطالعہ، خصوصاً خاص ماحول یا حالات میں، کسی فرد کے ذہنی روّیے اور خصوصیات کا علمی مطالعہ کہہ سکتے ہیں۔ اس کو آپ قیاس یا نقطہٴ نظر ، فکری یا نظری بات اور علمی یا سائنسی حقائق کا اظہار بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہم ایسے اثرزدہ لوگوں کے علاج کے لئے سائیکیاٹری کا علم یعنی نفسیاتی علاج اور نفسیاتی امراض کی تحقیق کہہ سکتے ہیں۔ ان دونوں علوم سے ضدّی، خود کو ہر بات میں سچ اور سب سے بہتر سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد کا علاج کیا جاتا ہے۔ میں اس سلسلہ میں فرانس کے ماہرین نفسیات ڈاکٹر ڈین اِسپربیئر (Dan Sperber) جنہوں نے پیرس کی مشہور یونیورسٹی سوربون (Sorbonne) اور آکسفورڈ (Oxford) یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی تھی اور انکے شاگرد ڈاکٹر ہُو گو مَرسیئے (Hugo Mercier) کی تحقیق اور اس کے نتائج سے آپ کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ ان دونوں ماہر نفسیات کی تحقیق یا ریسرچ کے مطابق انسانوں کی اکثریت اتنی سچائی اور حقیقت کو جاننے کے لئے جستجو نہیں کرتی جتنی کہ خود سے اَخذ کئے ہوئے نتائج کو درست ثابت کرنے پر تلی رہتی ہے۔ پھر ایسا کرتے ہوئے لوگ اپنے مٴوقف کے دونوں پہلوؤں یعنی ٹھیک اور غلط کو زیر نگاہ نہیں رکھتے۔ صرف ان ہی دلائل کی رٹ لگائے جاتے ہیں جو ان کے اپنے نقطہ نظر کی حمایت یا حق میں جاتے ہیں۔ یہ لوگ مخالف دلائل کو (خواہ وہ کتنے ہی وزنی اور قوّی ہوں) سننے یا ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔ الحمرا لاہور کے اگست کے شمارہ میں ہالینڈ میں رہائش پزیر جناب حسین شاہد صاحب نے بھی اس تحقیق کی جانب توجہ مبذول کرائی تھی اور لوگوں کی ضد اور ہٹ دھرمی کے بارہ میں تبصرہ کیا تھا۔
اس سلسلہ میں کئی سال پیشتر ایک عالم اور مردم شناس عرب دوست نے بہت ہی اہم تبصرہ کیا تھا۔ ان کا مطالعہ وسیع تھا اور انھوں نے کہا تھا کہ انسانی کردار و اعمال کے مشاہدہ کی بنیاد پر بلا جھجک کہہ سکتا ہوں کہ آپ بد شکل انسان میں عقل و فہم کا فقدان پائینگے کیونکہ اللہ تعالیٰ جس فرد کو اپنی رحمت سے نواز کر عقل و فہم دیتا ہے اس کو کم از کم خوش شکل بھی بناتا ہے۔ایک خوبصورت پھول بدبودار نہیں ہوتاا سی طرح اللہ تعالیٰ عیار، مکّار اور ناقابل بھروسہ فرد میں ضرور ظاہری عیب دیدیتا ہے کہ لوگ اس سے ہوشیار رہیں۔ یہ بات اُنھوں نے بہت سوچ سمجھ کر کہی تھی اور نہایت اعتماد سے کہی تھی۔ میں نے ہمیشہ یہ بات مدنظر رکھ کر لوگوں کا مشاہدہ کیا اور اس بیان کی صداقت کا قائل ہوگیا۔ اب سیاست دانوں اور دوسرے لوگوں سے جب میرا سابقہ پڑتا ہے تو خودبخود یہ بات خیال میں آجاتی ہے۔
ایک معزز اور ایماندار اور ذی فہم سیاست داں یعنی شاہ محمود قریشی نے تحریک اِنصاف میں شمولیت کا اعلان کردیا ہے۔ ان کی شرکت سے عمران خان کی پارٹی کو بہت تقویت ملے گی۔ وہ ایک نڈر اور راست گو سیاست داں ہیں۔ عمران خان خود محب وطن ہیں، مخلص ہیں اور ملک و عوام کا درد ان کے دل میں ہے۔ اس وقت ان کو بہت احتیاط و سوچ سمجھ کر اپنی تقریریں کرنا چاہئے ا ور عوام سے بہت سوچ سمجھ کر وعدے کرنا چاہیئے۔ ہم سب نے روٹی، کپڑا، مکان کا حشر دیکھ لیا ہے۔ وہ کھوکھلے نعرے لگانے سے گریز کریں اور عوام کو درپیش مسائل کے حل کی جانب توجہ دیں۔ عوام اب تک "ماراچہ ازیں قصّہ کہ گاؤ آمدو خر رفت" یعنی ہمیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ بیل آیا اور گدھا چلا گیا، کا کھیل دیکھ رہے ہیں۔ عمران خان کے مشیروں میں سے کسی نے ان کی توجہ ان کے بار بار سونامی کے نعرے اور اس کا صحیح مطلب سمجھانے کی کوشش نہیں کی۔ سونامی ان اونچی، تیز لہروں کو کہتے ہیں جو زیر آب (سمند ر میں) طاقتور زلزلے سے پیدا ہوتی ہیں۔ اس کی تازہ مثال ابھی ماضی قریب میں مشرق بعید کی ہے اس خوفناک زلزلے اور نتیجہ میں اُٹھنے والی خوفناک لہروں نے انڈونیشیا، تھائی لینڈ، ہندوستان وغیرہ میں تباہی پھیلا دی تھی۔ ڈھائی لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک کئے۔ کئی لاکھ مویشی، مکانات، عمارتیں چند لمحوں میں صفحہٴ ہستی سے غائب ہوگئیں۔ یہ سونامی عذاب اپنے پیچھے تباہی، غارتگری ،اموات چھوڑ گیا۔ اس کے نتیجہ میں کچھ بھی اچھا نتیجہ نہیں نکلا تھا۔ عمران خان اگر برائی کے بدلے اچھائی لانا چاہتے ہیں تو بہتری کے لئے عوامی انقلاب کی دعوت دیں، سونامی کی نہیں۔ آپ بہتری، اچھائی کی اُمید اور آمد کی خوشخبری سنائیں۔ عوام تبدیلی چاہتے ہیں، موجودہ نااہل و راشی حکمرانوں سے اُکتا گئے ہیں۔ میں سیاست داں نہیں مگر انسان جب کچھ پڑھ لیتا ہے تو حالات کو سمجھنے کی صلاحیت آ ہی جاتی ہے۔ ملک کے نازک حالات میں اس وقت عمران خان کو اور نوازشریف صاحب،شہباز شریف صاحب کو نہایت مخلصانہ مشورہ ہے کہ اس ملک کو بچانے، عوام کی تکالیف دور کرنے اور پاکستان کا کھویا بلکہ تباہ کردہ وقار بحال کرنے کے لئے آپ مل کر اگلے الیکشن میں حصّہ لیں جیسا کہ میرے محترم دوست جاوید ہاشمی نے بھی کہا ہے ۔ موجودہ حالات میں آپ دونوں آپس میں لڑ کر چوروں اور نااہلوں کی حکمرانی کو طول دینگے اور اس پانچ سال کے دور کے بعد آپ ناپید ہوجائینگے۔ مجھے یقین ہے کہ ملک کو بچانے اور عوام کی مشکلات دور کرنے میں جماعت اسلامی بھی آپ کا ساتھ دیگی۔ خدا کے لئے جاہل مشیروں سے جان چھڑائیں، ماضی پر نظر ڈالیں اور کچھ سیکھیں۔
آجکل جب میں لاتعداد خود کارمشیروں کو قومی لیڈروں کے ارد گرد دیکھتا ہوں تو مجھے فرعون اور حضرت موسیٰ کا واقعہ یاد آجاتا ہے۔ جب فرعون کی زیادتیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ وہ اپنے قبیلہ یعنی بنی اسرائیل کو لے کر بحر قلزم کو عبور کرکے دوسری جانب محفوظ علاقہ میں چلے جائیں تو وہ سمندر کی جانب چل پڑے ۔ وہاں اللہ تعالیٰ کے حکم پر حضرت موسیٰ نے پانی پر اپنا عصا مارا تو وہ دو حصّوں میں پھٹ گیا اور حضرت موسیٰ اور ان کا قبیلہ اس میں اتر کر روانہ ہو گیا۔ جب فرعون اپنے فوجی دستہ کے ساتھ وہاں پہنچا تو سمندر کو پھٹا دیکھ کرحیران ہوا۔ اس کے مشیروں نے کہا کہ آپ کے خوف اور احترام میں سمندر نے راستہ بنا دیا ہے کہ ہم موسیٰ اور اسکے قبیلہ کو پکڑ سکیں۔ جونہی وہ پانی کے دو حصّوں کے درمیان اترے اور کچھ دور گئے کہ اللہ تعالی ٰ نے دونوں حصّوں کو ملا دیا اور فرعون اور اس کے ساتھی غرق ہوگئے۔ آپ نے دیکھا کہ عقل و فہم سے مُبرّا مشیروں کے مشورہ پر عمل کرکے فرعون کا کیا حشر ہوا۔ سیاسی رہنماؤں خاص کر نواز شریف، شہباز شریف اور عمران خان کو چاہئے کہ اپنے مستقبل، ملک کے اور عوام کے مفاد کی خاطر "مشیروں" سے ہوشیار رہیں۔