Islamabad Tonight with Nadeem Malik
حکومت پیسے اور گیس دے دے تو ایک رات میں بجلی کی پیداوار دو ہزار میگا واٹ بڑھ سکتی ہے۔عبداللہ یوسف--گزشتہ چار سالوں میں پاکستان کا گروتھ ریٹ پچھلے پچاس سالوں کا کم ترین ریٹ رہا ہے۔ افریقہ کے بعض ممالک اور ساؤتھ ایشیا کے تمام ممالک کے مقابلے میں بھی پاکستان کا گروتھ ریٹ کم ہے۔ پچھلے چار سالوں میں پاکستان کے قرضوں کا بوجھ چھ ہزار ارب روپے بڑھ چکا ہے۔جب تک پاکستان میں باقاعدہ ٹیکس کا نظام نہیں آئے گا بجٹ خسارہ ختم نہیں ہو سکتا۔ اسد عمر--پچھلے چار سالوں میں معیشت کی بہتری کے لئیے کوئی بڑا قدم نہیں اٹھایا گیا۔ جتنا ٹیکس ہم اکٹھا کر رہے ہیں ہم اس سے اناسی فیصد اور زیادہ اکٹھا کر سکتے ہیں۔ اس وقت آئی پی پی کے تقریبا ڈھائی سو ارب روپے واجب الادا ہیں۔ عبداللہ یوسف--پاکستان کی معیشت کو سب سے زیادہ نقصان انرجی کے بحران کی وجہ سے ہوا ہے۔ جسے ہم سرکلر ڈیٹ کہتے ہیں وہ حقیقت میں باقاعدہ چوری ہے۔ چار سال پہلے گیس کی چوری تقریبا پانچ فیصد تھی جو اب پندرہ فیصد ہو چکی ہے۔ فرخ سلیم--دنیا میں کوئلہ پچاس فیصد بجلی پیدا کی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں صرف ایک فیصد۔بجلی کی پیداواری لاگت کم کرنے کے جو اقدامات اٹھانے چاہییں تھے ان میں سے ایک بھی نہیں اٹھایا گیا۔ چار سالوں میں سرکلر ڈیٹ، لوڈ شیڈنگ اور گیس کی کمی زیرو ہو سکتی ہے۔ اسد عمر--حکومت منصوبے تو بناتی ہے لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کر رہی۔ عدباللہ یوسف--اس وقت ریونیو بڑھانے اور خرچے کم کرنے کی ضرورت ہے۔ فرخ سلیم
http://www.youtube.com/watch?v=uj8Lei2zcdA&feature=player_embedded
اعدادوشمار کے مطابق معاشي ترقي کي شرح 4.2 في صد کي بجائے 3.7 صد رہي، زرعي شعبہ کي ترقي 3.4 في صد کي بجائے 3.1 في صد رہي، خدمات ميں شرح 5 في صد کي جائے4 في صد رہي، پيداواري شعبہ ميں ترقي کي شرح 3.7 في صد کي بجائے 3.6 في صد رہي، بڑے صنعتي يونٹ ميں شرح نمو 2 في صد کي بجائے 1.8 في صد رہي، بچتيں قومي آمدني کے 13.2 في صد سے کم ہوکر 10.8 في صد رہ گئيں، سرمايہ کاري قومي آمدني کا 13 في صد سيکم ہوکر صرف 8.4 في صد رہ گئي، جولائي سے اپريل سرمايہ کاري حجم 66 کروڑ ڈالر رہاجو گزشتہ سال 1.2 ارب ڈالر تھا اور يوں سرمايہ کاري ميں 48.2 في صد کمي ہوئي، جولائي سے مارچ تک جاري کھاتے کا خسارہ 3.1 ارب ڈالر رہا ، جولائي سے اپريل افراط زرکي شرح 10.8 في صد رہي جو گزشتہ سال 13.8 في صد تھي، کھانے پينے کي چيزيں 11 في صد مہنگي ہوئيں.
حکومت پیسے اور گیس دے دے تو ایک رات میں بجلی کی پیداوار دو ہزار میگا واٹ بڑھ سکتی ہے۔عبداللہ یوسف--گزشتہ چار سالوں میں پاکستان کا گروتھ ریٹ پچھلے پچاس سالوں کا کم ترین ریٹ رہا ہے۔ افریقہ کے بعض ممالک اور ساؤتھ ایشیا کے تمام ممالک کے مقابلے میں بھی پاکستان کا گروتھ ریٹ کم ہے۔ پچھلے چار سالوں میں پاکستان کے قرضوں کا بوجھ چھ ہزار ارب روپے بڑھ چکا ہے۔جب تک پاکستان میں باقاعدہ ٹیکس کا نظام نہیں آئے گا بجٹ خسارہ ختم نہیں ہو سکتا۔ اسد عمر--پچھلے چار سالوں میں معیشت کی بہتری کے لئیے کوئی بڑا قدم نہیں اٹھایا گیا۔ جتنا ٹیکس ہم اکٹھا کر رہے ہیں ہم اس سے اناسی فیصد اور زیادہ اکٹھا کر سکتے ہیں۔ اس وقت آئی پی پی کے تقریبا ڈھائی سو ارب روپے واجب الادا ہیں۔ عبداللہ یوسف--پاکستان کی معیشت کو سب سے زیادہ نقصان انرجی کے بحران کی وجہ سے ہوا ہے۔ جسے ہم سرکلر ڈیٹ کہتے ہیں وہ حقیقت میں باقاعدہ چوری ہے۔ چار سال پہلے گیس کی چوری تقریبا پانچ فیصد تھی جو اب پندرہ فیصد ہو چکی ہے۔ فرخ سلیم--دنیا میں کوئلہ پچاس فیصد بجلی پیدا کی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں صرف ایک فیصد۔بجلی کی پیداواری لاگت کم کرنے کے جو اقدامات اٹھانے چاہییں تھے ان میں سے ایک بھی نہیں اٹھایا گیا۔ چار سالوں میں سرکلر ڈیٹ، لوڈ شیڈنگ اور گیس کی کمی زیرو ہو سکتی ہے۔ اسد عمر--حکومت منصوبے تو بناتی ہے لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کر رہی۔ عدباللہ یوسف--اس وقت ریونیو بڑھانے اور خرچے کم کرنے کی ضرورت ہے۔ فرخ سلیم
http://www.youtube.com/watch?v=uj8Lei2zcdA&feature=player_embedded
|
اعدادوشمار کے مطابق معاشي ترقي کي شرح 4.2 في صد کي بجائے 3.7 صد رہي، زرعي شعبہ کي ترقي 3.4 في صد کي بجائے 3.1 في صد رہي، خدمات ميں شرح 5 في صد کي جائے4 في صد رہي، پيداواري شعبہ ميں ترقي کي شرح 3.7 في صد کي بجائے 3.6 في صد رہي، بڑے صنعتي يونٹ ميں شرح نمو 2 في صد کي بجائے 1.8 في صد رہي، بچتيں قومي آمدني کے 13.2 في صد سے کم ہوکر 10.8 في صد رہ گئيں، سرمايہ کاري قومي آمدني کا 13 في صد سيکم ہوکر صرف 8.4 في صد رہ گئي، جولائي سے اپريل سرمايہ کاري حجم 66 کروڑ ڈالر رہاجو گزشتہ سال 1.2 ارب ڈالر تھا اور يوں سرمايہ کاري ميں 48.2 في صد کمي ہوئي، جولائي سے مارچ تک جاري کھاتے کا خسارہ 3.1 ارب ڈالر رہا ، جولائي سے اپريل افراط زرکي شرح 10.8 في صد رہي جو گزشتہ سال 13.8 في صد تھي، کھانے پينے کي چيزيں 11 في صد مہنگي ہوئيں.