سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس جس میں الطاف حسین کی 2 دسمبر کی تقریر کے بعض مندرجات کا حوالہ دیتے ہوئے قراردیاگیاہے کہ بظاہر الطاف حسین کی تقریر کے متذکرہ بالا مندرجات جن میں عدالت عظمیٰ کے معزز جج صاحبان کو دھمکایا گیا، عدالت کے معاملات میں مداخلت اور مزاحمت کے مترادف ہیں اور اِن میں ججوں کیلئے نفرت ، تضحیک اورتوہین کا عنصر موجود ہے، ان کے الفاظ دھمکی آمیز اور انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ہیں، مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 204 ہمراہ توہین عدالت آرڈیننس دفعہ 3کے تحت الطاف حسین کوسمن جاری کرنے کی ہدایات کی کہ وہ عدالت کے سامنے بذات خود پیش ہوں اور وضاحت کریں کہ کیوں نہ اُن کے خلاف آئین اور قانون کے مطابق توہین عدالت کی کاروائی کی جائے۔ اتوارکوجاری کردہ تفصیلی فیصلہ چیف جسٹس اوربنچ کے دیگردوججوں کے دستخطوں کے بعدجاری کیاگیا اس کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس انور ظہیر جمالی نے کی۔ تحریری فیصلے میں کہاگیاکہ عدالت ہذا کے رجسٹرار آفس نے ہماری توجہ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما الطاف حسین کی مورخہ 02/12/2012کو کی گئی تقریر کی جانب دلائی جو کہ انہوں نے بہت بڑے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کی، جس میں سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کے بارے میں نامناسب الفاظ اور تاثرات کا استعمال کیا گیا۔ کراچی میں موجودہ امن و امان کے تناظر میں عدالت ہذا نے مقدمہ وطن پارٹی بنام فیڈریشن آف پاکستان کے فیصلے مورخہ 13/09/2011 میں حالات و واقعات جن کی بناء پر کراچی کے شہریوں کی جان و مال غیر محفوظ تھیں کا گہرا جائزہ لیتے ہوئے کچھ ہدایات جاری کی تھیں جن میں سے ایک بغرض حوالہ درج ذیل ہے ۔"مزیدمشاہدہ کیا جاتا ہے کہ سیاسی چپقلش سے گریز کے لئے اور فرقہ وارانہ فسادات اور باہمی جھگڑوں کے زور کو توڑ نے کے لئے انتظامی اداروں جیسے کے تھانوں اور ریونیو وغیرہ کی حد بندیوں میں ترامیم کی جانی چاہئیں تاکہ مختلف طبقوں کے افراد باہمی طور پر امن و آشتی سے رہ سکیں چہ جائیکہ مختلف گروہوں کو یہ اختیارات دئیے جائیں کہ وہ کِسی مخصوص علاقے کو اپنی ملکیت قرار دیں اور کچھ علاقوں کو اپنے دہشت ناک دباؤ کی بدولت ممنوع علاقہ قرار دے دیں۔ بعد ازاں انہی خطوط پر کراچی جو کہ پاکستان کا اقتصادی اور تجارتی گڑھ اور پاکستان کا چہرہ تصور کیا جاتا ہے کو مستقبل قریب میں پرامن شہر بنانے کی غرض سے متعلقہ قوانین کی روشنی میں اِسی مقصد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مختلف علاقوں کی نئی حدود بندیاں عمل میں لائی گئیں، خاص طور الیکشن کمیشن آف پاکستان اِس سلسلے میں کام شروع کر چُکا ہے۔ فیصلے کے مطابق یہ بات قابل غور ہے کہ مذکورہ بالا فیصلہ قابلِ قبول تھا کیونکہ فیصلہ میں دی گئی ہدایات کے خِلاف کوئی درخواست نظر ثانی نہیں دائر کی گئی ۔مذکورہ فیصلے میں ایک مکمل طریقہ کار متعارف کروایا گیاتاہم بعد ازاں یہ بات مشاہدے میں آئی کہ منجملہ اور چیزوں کے مذکورہ بالا ہدایات پر خاطر خواہ وقت گزرجانے کے باوجود عمل در آمد نہیں کیا گیا لہٰذا مختلف مواقعوں پر مقدمے کی سماعت فیصلے پر عمل در آمد کی غرض سے کی گئی مورخہ 28/11/2012کو عدالت ہٰذا کے ایک بینچ نے الیکشن کمیشن کو ہدایات جاری کیں کہ وہ کراچی شہر کی نئی حدود بندیوں کا کام اپنے ہاتھ میں لے لے۔ مذکورہ فیصلہ کا متعلقہ متن برائے حوالہ ذیل میں دیا گیا ہے۔ ہمارے سابقہ فیصلے مورخہ 26/11/2012کے جواب میں جناب اشتیاق احمد خان سیکریٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان حاضر ہیں اُن سے جب عدالت ھٰذا کے تحفظات جو کہ کراچی کی مختلف عِلاقوں کی نئی حدود بندیوں کے متعلق تھے جو کہ مقدمہ وطن پارٹی (PLD 2011 SC 997) صفحہ نمبر 1131 میں دئیے گئے فیصلے کے مطابق اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ڈائریکٹرجنرل سید شیر افگن کے سابقہ مئوقف کی بابت استفسار کیا گیا تو اُنہوں نے تسلیم کیا کہ نہ تو اِسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین مجریہ 1973ء کا آرٹیکل 51(5) اور نہ ہی عِلاقوں کی نئی حدود بندیوں کا قانون مجریہ 1974کی دفعہ 7(2)عدالت ھٰذا کے تحفظات پر عمل در آمد کے درمیان حائل ہے انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ مختلف عِلاقوں کی حدود بندیوں کا کام الیکشن کمیشن نے حکومت سندھ کے تعاون سے اپنے ذمے لے لیا ہے۔ جس مقصد کے لئے آج سے وہ خود حکومتِ سندھ کے متعلقہ حکام کے ساتھ تین اِجلاس کرنے جارہے ہیں خاص طور پر چیف سیکرٹری حکومت سندھ سے ملاقات کی جائے گی تاکہ اِ س معاملے میں خاطر خواہ اقدامات کئے جا سکیں اُنہوں نے مزید یقین دہانی کرائی کہ عِلاقوں کی نئی حلقہ بندیوں کے متعلق عدالتِ ھٰذا کے تحفظات پر عمل در آمد ھِدایات کی اصل رُوح کے مطابق کم سے کم عرصے میں تمام متعلقہ اِسٹیک ہولڈرز کو شامل کرتے ہوئے اورمجوزہ طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے مکمل کیا جائے گااور اِ س عمل کی جامع رپورٹ عدالتِ ھٰذا میں پیش کی جائے گی۔ حکومتِ سندھ کے چیف سیکریٹری جو کہ عدالت میں حاضر تھے نے یقین دہانی کرائی کہ وہ اِس مقصد میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ساتھ مکمل تعاون کریں یہاں یہ بات توجہ طلب ہے کہ مذکورہ بالافیصلے میں کوئی اعتراض داخل نہ کیا گیا ماسوائے اِس کے کہ عدالت ھٰذا کے فیصلے مورخہ 13/09/2011پر اُس کی اصل رُوح کے مطابق عمل در آمد کی یقین دہانی کی گئی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مذکورہ فیصلے کے دیئے جانے کے بعد الطاف حسین جو کہ ایم کیو ایم کے رہنما ہیں نے کراچی کے شہریوں /عوام سے پی ٹی اے کی جانب سے اپ لنکنگ کی سہولت استعمال کرتے ہوئے بذریعہ ٹیلی فون خطاب کیا جس میں غیر ضروری الزامات اور مطالبات کئے گئے تقریر کا متن پیمرا سے حاصل کیا گیا ہے جس کے جائزے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کی جانِب سے تضحیک آمیزاِلزامات سنگین نوعیت کے اورتوہین آمیز ہیں۔ تقریر کا خلاصہ بغرض حوالہ یہ ہے۔ دشمن عناصر عدالتوں کے بعض ججز کو ایم کیو ایم کو فنا کرنے کیلئے بعض ججز کو استعمال کر رہے ہیں۔ افسوس کے ساتھ سپریم کورٹ کے ججز بھی ایم کیو ایم کو فنا اور ایم کیو ایم کے نام و نشان مٹانے کے عمل میں شریک ہیں۔ میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ یہ بیان ریکارڈ پر ہے، چیف آف آرمی اسٹاف آصف نواز جنجنوعہ کا ریکارڈ پر بیان موجود ہے، 19جون 1992ء کے بعد کے اخبارات اُٹھا کر دیکھ لیجئے۔ الطاف حسین کا چیپٹر کلوز ہو گیا ہے۔ الطاف حسین کا چیپٹر اللہ نے کھولا تھا، وہی کلوز کرے گا، تو انسان زمین پر وردی پہن کر خدا کا روپ دھارنے والا تو تیرا نام و نشان مٹ گیا، الطاف حسین اب بھی زندہ ہے۔یہ جو فیصلہ جو ریمارکس سپریم کورٹ کی اس اسپیشل خصوصی بینچ نے، کراچی بدامنی کیس کے سلسلہ میں فیصلہ دیتے ہوئے جس جج نے یہ ریمارکس اپنے دیگر ججز کی موجودگی میں کہے کہ کراچی میں بدامنی کے خاتمے کیلئے امن و امان کو بہتر بنانے کیلئے نئی حد بندیاں کی جائیں کہ کسی جماعت کی اجارہ داری نہ رہے۔ جس جج نے اور جس بینچ نے یہ فیصلہ دیا ہے، اگر وہ کروڑوں عوام کی نمائندہ جماعت ایم کیو ایم کے خلاف دئیے گئے اس ریمارکس پر معافی نہیں مانگے گی تو میں بتاتا ہوں کہ اُن کا نام و نشان مٹ جائے گا انشاء اللہ۔ انہیں ابتری کا سامنا کرنا ہو گا۔جہاں تمام ملک کے شہروں سے زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کا حصہ ہے تو فاضل جج کو یہ ریمارکس دو کروڑ سے زائد عوام کی توہین ہے، اُن کے لئے گالی ہے، فاضل جج عوام سے معافی مانگو ورنہ خلقِ خدا کو ختم کرنے کا جو خواب تمہارا منصب پر بیٹھ کر عدالت کی کرسی پر بیٹھ کر وہی عدالتِ عظمیٰ کے جو خواب دیکھ رہے ہو، اور پوری بینچ سن رہی ہے تو، یاد رکھو، ایم کیو ایم کو ہر نام و نشان مٹانے والوں کا نام و نشان ہیں رہا، اُن کا نام لینے والا کوئی نہیں، آج نصیر اللہ بابر کو کتنے لوگ یاد کرتے ہیں۔ تو خصوصی بینچ کے فاضل جج کے یہ ریمارکس، خصوصی بینچ کے دیگر ججوں کے سامنے بٹھا دیے، ووٹرز، خواتین ، ماؤں بہنوں، بزرگوں، نوجوانوں، حتیٰ کے معصوموں کی جانب سے اپنے جو حقِ رائے دہی اڈلٹ فرنچائز کا حق آئین و قانون کے تحت ہر جمہوری سمت میں دیا جا رہا ہے اس کا حق استعمال کرنے کے خلاف کھلی سازش ہے۔اور یہ فاضل جج کہہ رہے ہیں کہ اجارہ داری قائم نہ ہو، اے فاضل جج اپنے الفاظ واپس لو، معافی مانگو، ورنہ جلد قہرخداوندی تم پر نازل ہوگا، اور یاد رکھو، تمہارا نام جب بھی آئے گا جس طرح حسین کا احترام سے نام لیتے ہیں اور یزید کا نام سنتے ہی لاحول پڑھتے ہیں ، تو یاد رکھو، اے فاضل جج اور بینچ کے دیگر ججز، اگر آپ نے معافی نہ مانگی تو یاد رکھئے، آپ کا نام و نشان نہ رہے گا بلکہ جب بھی آپ کا نام آئے گا، وہ یزیدیت کے ساتھ آئے گا۔تو بھائی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب افتخار احمد چوہدری صاحب ۔۔۔ آپ کی سپریم کورٹ کے ججز نے انتہائی غلیظ ریمارکس پاس کر کے عدالت عظمیٰ کے وقار کو مجروح کیا ہے۔ میں ایم کیو ایم کے خلاف متعصب ججز کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ ملک کے غیور اور جمہوریت پسند عوام کسی کو اپنے جمہوری حق پر ڈاکہ ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے، فاضل جج کے یہ ریمارکس امتیازی، ہی نہیں، تعصب ، بدنیتی آئین قانون کے خلاف ہیں، بینچ کے ججز، اس مخصوص بینچ کے ججز جو ہیں، اس میں جو فاضل جج نے یہ ریمارکس دئیے وہ آئین کے سیکشن 25کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ اب یہ حلف کی غداری نہیں ہو رہی چیف جسٹس صاحب! قانونی اور آئینی حلف کی غداری نہیں ہو رہی۔اس بینچ کے جو فاضل بینچ جس نے یہ ریمارکس متعصبانہ دئیے ہیں یہاں سپریم کورٹ کے اِس بینچ کے بارے میں کہتا ہوں کہ ایسے متعصب ججز جب تک عدالت میں کرسیوں پر بیٹھے رہیں گے۔ نہ ملک کا عدالت کا نظام ٹھیک ہو گا نہ ملک کا لاء اینڈ آرڈر کبھی درست ہو گا۔ لاء اینڈ آرڈر صحیح کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ایسے متعصب ججز کو فارغ کیا جائے۔ آج عدالتیں اور عدالتوں کے بینچز بدقسمتی سے آج ہمارے ملک میں مذاق بن چکی ہیں۔ تفصیلی فیصلے میں کہاگیاکہ مذکورہ تقریر کے متن سے متعلق دفتری کاروائی کو عدالت میں پیش کرنے کی ہدایات جاری کی گئیں کیونکہ مذکورہ بالا مواد کا جائزہ لینے کے بعد یہ ضروری محسوس کیا گیا کہ اِس مواد کا عدالتی مواخذہ کیا جائے۔بظاہر الطاف حسین کی تقریر کے متذکرہ بالا مندرجات جِن میں عدالت عظمیٰ کے معزز جج صاحِبان کو دھمکایا گیا، عدالت کے معاملات میں مُداخلت اور مزاحمت کے مترادف ہیں اور اِن میں ججوں کے لئے نفرت ، تضحیک اورتوہین کا عنصر موجود ہے۔ مذکورہ الزامات کی وجہ سے وطن پارٹی کے مقدمے میں دی گئیں ہدایات اوراِسی مقدمے میں مورخہ 01/11/2012 28/11/2012, 26/11/2012, وغیرہ پر عدالت کی جانب سے جاری کردہ احکامات پر عمل در آمد بھی متاثر ہو سکتا ہے۔مذکورہ درخواست سینیٹر حاجی عدیل کی جانب سے توہین عدالت آرڈیننس 2003کی دفعہ 5ہمراہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 204کے تحت دائر کی گئی۔ جس میں عدالت ہذا کے متذکرہ بالا فیصلے میں جاری کردہ ہدایات پر انحصار کرتے ہوئے منجملہ اور چیزوں کے یہ بیان کیا گیا کہ کراچی میں انسانوں کی زندگیاں اور جائیدادیں محفوظ نہیں، اورایک برس سے زیادہ کاعرصہ گزر جانے کے باوجود انسانی جانوں کے ضیاع میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ یہ مزید بیان کیا گیا کہ انتظامیہ جس کے سر براہ چیف سیکریٹری ہیں حالات میں بہتری لانے میں ناکام رہی ہے اور عدالت ہٰذا کی ہدایات کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جارہا ہے۔ جہاں تک کہ عدالت کے سیاسی چپقلش سے گریز کے لئے اور فرقہ وارانہ فسادات اور باہمی جھگڑوں کے زور کو توڑ نے کے لئے انتظامی اداروں جیسے کے تھانوں اور ریونیو محالات وغیرہ کی حد بندیوں میں ترامیم تاکہ مختلف طبقوں کے افراد باہمی طور پر امن و آشتی سے رہ سکیں اورکراچی کو پُر امن شہر بنانے کی غرض سے مختلف عِلاقوں کی نئی حد بندیوں کے تحفظات کا تعلق ہے یہ بیان کیا گیا کہ مسئول الیہان نے اِس مقصد کے لئے کوئی کاروائی سر اِنجام نہیں دی اور مذکورہ تحفظات کی کھلے عام خِلاف ورزی کی گئی ہے۔ مسئول علیہان نے ممنوعہ وغیر ممنوعہ بور کے اسلحے کے متعلق عدالت ہٰذا کی ہدایات کے معاملے میں ایک انچ کی پیش رفت بھی نہیں کی، نہ ہی ناجائز قابضین کے لئے کوئی متعلقہ قانون سازی کی گئی جو کہ عدالت کی توہین کے مترادف ہے۔ یہ مزید بیان کیا گیا کہ اُن لوگوں جنہوں نے اپنی جانیں گنوائیں اور جائیدادوں سے ہاتھ دھو بیٹھے کو ہر جانے کی ادائیگی کی ہدایات پر بھی عمل در آمد نہ کیا گیا ، نہ ہی خود مختار اور غیر سیاسی تفتیشی اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا ، نہ ہی نادرا اور آئی جی پی کی جانِب سے مخصوص مُشترکہ سیل قائم کیئے گئے اور نہ اُن پولیس افسران اور گواہان وغیرہ کا ریکارڈ جمع کیا گیا جومختلف واقعات میں قتل کئے گئے۔ مذکورہ درخواست میں درج ذیل استدعا کی گئی ۔"لہٰذا یہ استدعا کی جاتی ہے کہ مسئول علیہان کے خِلاف توہین عدالت کے قانون کی دفعہ 5 بہمراہ اِسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 204کے تحت کارروائی کی جائے اور اُنہیں توہین عدالت کی کاروائی کرتے ہوئے سزا دی جائے" مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں عدالت نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 204 ہمراہ توہین عدالت آرڈیننس دفعہ 3کے تحت الطاف حسین کوسمن جاری کرنے کی ہدایات کی کہ وہ عدالت کے سامنے بذات خود پیش ہوں اور وضاحت کریں کہ کیوں نہ اُن کے خلاف آئین اور قانون کے مطابق توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ سمن کا اجراء وتعمیل بذریعہ سیکریٹری وزارتِ خارجہ حکومتِ پاکستان کیا جائے کیونکہ اُنہوں نے (الطاف حسین) یہ الزامات بیرونِ ملک سے بذریعہ ٹیلی فون خطاب کرتے ہوئے عائد کئے۔ سیکرٹری کو مزید ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ اُن کے دُرست پتے کی معلومات حاصل کرے اور سمن کی تعمیل بذریعہ نمائندہ فارن آفس کروائے۔اِسی طرح سے الطاف حسین کو ایک سمن پتہ الطاف حسین بذریعہ ڈاکٹر فاروق ستا ر، ڈپٹی کنوینئرایم کیو ایم 494/8، عزیز آباد، کراچی پر بھجوانے کی ہدایات بھی جاری کی گئیں۔ اسی طرح سے آئین پاکستان کے آرٹیکل 204ہمراہ توہینِ عدالت کے قانون مجریہ 2003 کی دفعہ 3کے تحت فوجداری (حقیقی) درخواست نمبر 96/2012 کے مسئول علیہان کو سمن جاری کرنے کے احکامات جاری کئے جاتے ہیں کہ وہ عدالت میں پیش ہوں اور وضاحت کریں کہ وطن پارٹی کے مقدمے میں دیئے گئے فیصلے پر عمل در آمد میں نا کام رہنے پر کیوں نہ اُن کے خلاف آئین اورقانون کے مطابق توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ صوبہ سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل کو بھی ہدایات دی گئیں کہ وہ وطن پارٹی کے مقدمے میں جاری کردہ ہدایات اوراُن احکامات جو کہ مذکورہ فیصلے پر عمل درآمد کے متعلق تھے کی تعمیل کی بابت جامع رپورٹ عدالت ہٰذا میں پیش کریں اور اگر فیصلے پر اُس کی اصل رُوح کے مطابق عمل درآمد نہیں کیا جاسکا تو وہ اُن افراد کی نشاندہی کریں جو کہ انفرادی یا اجتماعی طور پر اِس کے ذمہ دار ہیں۔ دریں اثناء صوبائی حکومت بذریعہ چیف سیکرٹری تحریری بیان داخل کرے کہ کراچی میں قتل کی وارداتیں کیوں دوبارہ بڑھنا شروع ہوگئی ہیں اور کراچی کے شہریوں کے جان و مال کے یقینی تحفظ کے لئے کیا اِقدامات کئے گئے ہیں اور اُن شہریوں کی تفصیلات جنہیں 13/09/2011سے آج تک قتل کیا گیا ہے بھی عدالت ہٰذا کے رُوبرو پیش کریں۔ مقدمے کی سماعت 07/01/2013تک ملتوی کئی گئی ہے۔
IN THE SUPREME COURT OF PAKISTAN
(Law & Order Situation in Karachi)
O R D E ROffice of the Registrar of this Court has drawn attention
towards the substance of speech delivered by Altaf Hussain,
leader of Muttahid Qaumi Movement (MQM) on 02.12.2012
addressing a large number of people wherein uncalled for
expressions and aspersions were used against the Hon'ble Judges
of Supreme Court of Pakistan.
Crl.MA No.765/2012 etc.
2
2. In the wake of situation of law & order prevailing in
Karachi, this Court in the judgment dated 13.9.2011 passed in
the case of
Watan Party v. Federation of Pakistan (PLD 2011 SC
997), on having examined in depth the facts and circumstances,
on account of which lives and properties of the citizens of Karachi
are not secured, issued directions including the one, which is
reproduced herein below:-
"Further observe that to avoid political polarization and to break
the cycle of ethnic strife and turf war, boundaries Of
administrative units like police stations, revenue estates, etc.,
ought to be altered so that the members of different
communities may live together in peace and harmony, instead
of allowing various groups to claim that particular areas belong
to them and declaring certain areas as NO GO Areas under their
fearful influence. Subsequent thereto, on similar considerations,
in view of relevant laws, delimitation of different constituencies
has also to be undertaken with the same object and purpose,
particularly to make Karachi, which is the hub of economic and
commercial activities and also the face of Pakistan, a peaceful
city in the near future. The Election Commission of Pakistan may
also initiate the process on its own in this behalf."
It is to be noted that above judgment was conceded to as no
review petition was filed against any of the directions contained
therein. In the said judgment a mechanism was introduced but
subsequent thereto it was noticed that
inter alia above directions
were not being implemented despite lapse of considerable period,
therefore, on different occasions, the case was heard to
implement the judgment. On 28.11.2012 a Bench of this Court
issued direction to Election Commission for taking in hand the
process of delimitation of the constituencies in Karachi city.
Relevant para from the judgment is reproduced herein below:-
"In response to our earlier order dated 26.11.2012, Mr.
Ishtiak Ahmed Khan, Secretary, Election Commission of
Pakistan is present. When confronted with the observations of
this Court regarding delimitation of different constituencies at
Crl.MA No.765/2012 etc.
3
Karachi, in line with the observations in the judgment in the
case of Wattan Party (PLD 2011 S.C.997) at page 1131, and
the stance earlier taken by the Election Commission of
Pakistan through its director General (elections) Syed Sher
Afgan, he candidly conceded that neither the Article 51(5) of
the constitution of the Islamic Republic of Pakistan 1973 nor
section 7(2) of the Delimitation of Constituencies Act 1974
are hurdle in the compliance of such observations. He assured
that now the task of delimitation of different constituencies in
Karachi has been taken up by the election Commission of
Pakistan with the Government of Sindh, and, for this purpose,
from today onward, he is going to hold three meetings with
the concerned officials of the Government of Sindh,
particularly, the Chief Secretary, Government of Sindh to
make substantial progress in this regard. He further assured
that compliance of observations regarding delimitation of
constituencies will be done/completed in its letter and spirit
within the shortest possible time, after following due
procedure and taking on board all the stakeholders, and such
comprehensive report will be submitted for the perusal of this
Court. The Chief Secretary, Government of Sindh, who is also
present in Court, has assured fullest cooperation to the
election Commission of Pakistan for this purpose……
3. Needless to observe that there was no object of the
above order except to implement the judgment of this Court
dated 13.9.2011 in letter and spirit but it seems that after
passing above order Altaf Hussain leader of MQM delivered a
speech addressing to the general public/citizens of Karachi on
telephone by availing facility of uplinking, normally provided by
PTA, wherein uncalled for remarks and the demands were put
forward. The script of the speech has been obtained from PEMRA,
a perusal of the same suggests that the derogatory remarks
made by him are critical and also contemptuous in nature.
Extract from the speech is reproduced herein below:-
Crl.MA No.765/2012 etc.
4
١۔دشمن عناصر عدالتوں کے بعض ججز کو ایم کیو ایم کو فنا
کرنے کے لیے بعض ججز کو استعما ل کر رہے ہیں ۔ افسوس کے ساتھ
سپریم کورٹ کے ججز بھی ایم کیو ایم کو فنا اور ایم کیو ایم کا نام و نشان
مٹانے کے عمل میں شریک ہیں۔
٢۔ میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ یہ بیان ریکارڈ پر ہے، چیف آف آرمی
سٹاف حافظ نواز جنجوعہ کا ریکارڈ پر بیان
موجود ہے،
19 جون 1992 ء کے بعد کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیجئے۔
الطاف حسین کا چیپٹر کلوزہوگیا ہے۔
کرے گا، تو انسان زمین پر وردی پہن کر
Close الله نے کھولا تھا۔ وہی
Chapter
الطاف حسین کا
خدا کا روپ دھارنے والا تو تیرا نام و نشان مٹ گیا، الطاف حسین اب بھی
زندہ ہے۔
٣۔ یہ جو فیصلہ جو ریمارکس سپریم کورٹ کی اس اسپیشل خصوصی بینچ
نے، کراچی بدامنی کیس کے سلسلہ میں فیصلہ دیتے ہوۓجس جج نے یہ
ریمارکس اپنے دیگر ججز کی موجودگی میں کہے کہ کراچی میں بدامنی
کے خاتمے کے لئےلاء اینڈ آرڈر کو اچھا بنانے کے لئے نئی حد بندیاں
کی جائیں کہ کسی ایک جماعت کی اجارہ داری نہ رہے۔
۴۔ جس جج نے اورجس بینچ نے یہ فیصلہ دیا ہے، اگر وہ کروڑوں عوام
کی نمائندہ جماعت ایم کیو ایم کے خلاف دیئے گئے اس ریمارکس پر
معافی نہیں مانگے گی تو میں بتاتا ہوں کہ ان کا نام و نشان مٹ جائے گ ا
انشاء الله۔ انہیں ابتری کا سامنا کرنا ہو گا۔
۵۔ جہاں تمام ملک کے شہروں سے زیادہ پڑھے لکھےلوگوں کا حصہ
ہے تو فاضل جج کے یہ ریمارکس دو کروڑ سے زائد عوام کی توہین ہے،
ان کے لئے گالی ہے، فاضل جج عوام سے معافی مانگو ورنہ خلقِ خدا کو
ختم کرنے کا جو خواب تمھارا منصب پر بیٹھ کر عدالت کی کرسی پر بیٹھ
کر۔ وہی عدالتِ عظمیٰ کے جو خواب دیکھ رہے ہو، اور پوری بنچ سن
رہی ہے، تو یاد رکھو، ایم کیو ایم کوہرنام و نشان مٹانے والوں کا نام و
نشان نہیں رہا ، ان کا نام لینے والا کوئی نہیں، آج نصیر الله بابر کو کتنے
لوگ یاد کرتے ہیں۔
۶۔ تو خصوصی بینچ کے فاضل جج کے یہ ریمارکس، خصوصی بینچ کے
دیگر ججوں کے سامنےبٹھا دیے، ووٹرز، خواتین، ماؤں، بہنوں، بزرگوں،
نوجوانوں، حتیٰ کہ معصوموں کی جانب سے اپنے جو حقِ رائے دہی اڈلٹ
فرنچائز کاحق آئین قانون کے تحت ہر جمہوری سمت میں دیا جارہا ہے
اس کا حق استعمال کرنے کے خلاف کھلی سازش ہے۔
٧۔ اور یہ فاضل جج کہہ رہے ہیں کہ اجارہ داری قائم نہ ہو،اے فاضل جج
اپنے الفاظ واپس لو، معافی مانگو، ورنہ جلد قہرِ خدا وندی تم پر نازل ہوگا،
اور یاد رکھو، تمہارا نام جب بھی آئے گاجس طرح حسین کااحترام سے
نام لیتے ہیں اور یزید کا نام سنتے ہی لاحول پڑھتے ہیں، تو یاد رکھو، اے
Crl.MA No.765/2012 etc.
5
فاضل جج اور بینچ کے دیگر ججز، اگر آپ نے معافی نہ مانگی تو یاد
رکھیئے، آپ کا نام و نشان نہ رہے گا بلکہ جب بھی آپ کا نام آئے گا، وہ
یزیدیت کے ساتھ آئے گا۔
٨۔تو بھائی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب افتخار احمد چوہدری
صاحب ۔۔۔۔۔آپ کی سپریم کورٹ کے ججز نے انتہائی غلیظ ریمارکس پاس
کر کے عدالت عظمٰی کے وقار کو مجروح کیا ہے۔
٩۔ میں ایم کیو ایم کے خلاف متعصب ججز کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ ملک
کے غیور اور جمہوریت پسند عوام کسی کو اپنے جمہوری حق پر ڈاکہ
ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے ، فاضل جج کے یہ ریمارکس امتیازی،جی
نہیں ، تعصب،بد نیتی آئین قانون کے خلاف ہیں۔ بینچ کے ججز، اس
مخصوص بینچ کے ججز جو ہیں، اس میں جو فاضل جج نے ریمارکس
دیئے وہ آئین کے سیکشن
25 کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
١٠ ۔ اب یہ حلف کی غداری نہیں ہو رہی چیف جسٹس صاحب
! قانونی اور
آیئنی حلف کی غداری نہیں ہو رہی،
١١ ۔اس بنچ کے جو فاضل بنچ جس نے یہ ریمارکس معتصبانہ دیے
ہیںسپریم کورٹ کے اس بینچ کے بارے میں کہتا ھوں کہ ایسے معتصب
ججز جب تک عدالت میں کرسیوں پر بیٹھے رہیں گے۔ نہ ملک کا عدالت
کا نظام ٹھیک ہوگا نہ ملک کا لا اینڈ آرڈر کا کبھی درست ہوگا۔ لا اینڈ
آرڈر صحیح کرنے کے لیے ضروری ھے کہ ایسے معتصب ججز کو
فارغ کیا جائے۔
١٢ ۔عدالتیں آج عدالتیں اور عدالتوں کے بینچز بد قسمتی سے آج ہمارے
ملک میں مزاق بن چکی ہیں
4. The office note was directed to be put up in Court
because on having gone through the above material it was
considered appropriate to examine the same on judicial side.
5.
Prima facie, contents of the speech of Altaf Hussain,
reproduced above, tantamount to interference with and
obstruction of the process of the Court by advancing threats to
the Hon'ble Judges of Supreme Court and it also tends to bring
the Judges into hatred, ridicule and contempt. On account of
such assertions, the process of the Court is also likely to be
prejudiced, relating to implementation of the issues arising out of
the directions of this Court in
Watan Party's case and subsequent
orders dated 1.11.2012, 26.11.2012, 28.11.2012 etc. passed for
Crl.MA No.765/2012 etc.
6
the implementation of the directions issued in reported
judgment, referred to hereinabove.
Criminal Original Petition No.96 of 2012:
6. This petition has been filed by Senator Haji Adeel,
under section 5 of the Contempt of Court Ordinance, 2003 read
with Article 204 of the Constitution, wherein after having relied
upon the directions made by this Court in the judgment, noted
hereinabove,
inter alia it has been mentioned that in Karachi
lives and properties of the people have not been protected and
no respite in loss of human life since been witnessed even after
more than a year. It was further stated that the Administration
headed by Chief Secretary has failed to improve the situation and
thus the directions of this Court have been willfully ignored rather
violated. With regard to observation of this Court to avoid
political polarization and to break the cycle of ethnic strife and
turf war, boundaries of administrative units, like police stations,
revenue estates etc. are to be altered so that members of
different communities may live together in peace and harmony,
and to delimitation of different constituencies to make Karachi as
a peaceful city, it was mentioned that the respondents have done
nothing and the said observations have been violated flagrantly.
The respondents have not moved an inch with respect to the
directions regarding arms and ammunition of prohibited and nonprohibited
bores. No appropriate legislation has been made with
regard to land grabbing, which amounts to contempt of court. It
was also mentioned that the directions with regard to
compensation to those who lost their lives and properties,
deputing of independent and de-politicised investigating agency,
creation of special joint cell by NADRA and IGP, and collection of
record in respect of police officials and witnesses etc. who have
Crl.MA No.765/2012 etc.
7
been killed, have not been complied with. In the petition
following prayer has been made:-
"It is therefore prayed that the respondents be proceeded
against under section 5 of the Contempt of the Court Act
R/W Article 204 of the Constitution of Islamic Republic of
Pakistan and they may be tried for contempt of court and
punished accordingly."
7. In the light of above, notices under Article 204 of the
Constitution of Pakistan read with section 3 of the Contempt of
Court Ordinance, 2003 be issued to Altaf Husain to appear in
person and explain as to why he should not be proceeded against
for Contempt of Court in accordance with the Constitution and
the law. Notice be issued to him through Secretary, Ministry of
Foreign Affairs, Government of Pakistan as he has made above
assertions during a telephonic address from outside the country.
The Secretary will ascertain his correct location and shall ensure
service upon him, through representatives of the Foreign Office
outside the country. Similarly, a notice be also issued to him c/o
Dr. Farooq Sattar, Deputy Convener, MQM, 494/8, Azizabad,
Karachi.
8. Likewise, notices under Article 204 of the Constitution
of Pakistan read with section 3 of the Contempt of Court
Ordinance, 2003 be issued to the respondents in Criminal
Original Petition No.96/2012 to appear and explain as to why
they should not be proceeded against for Contempt of Court in
accordance with the Constitution and the law, for having been
failed to implement the judgment in
Watan Party's case.
9. The Advocate General of the Province of Sindh is also
directed to submit comprehensive compliance report in respect of
the directions contained in
Watan Party's case and the orders
passed thereafter by a Bench seeking implementation of the
judgment. And if the judgment is not implemented in letter &
Crl.MA No.765/2012 etc.
8
spirit, he should pinpoint the person(s) individually and
collectively responsible for the same. In the meanwhile the
Provincial Government through its Chief Secretary should also
furnish a statement as to why the killing in Karachi has again
increased and what measures have been taken to ensure the
safety and protection of the life and property of the citizens in
Karachi. Detail of citizens, who were killed from 13.09.2011 to
date, be also furnished.
Adjourned to 07.01.2013.
Chief Justice
Judge
Judge
Islamabad, the
14
th December, 2012